شفیق خلؔش نہیں کہ پیار ، محبّت میں کاربند نہیں ! بس اُس کی باتوں میں پہلے ج…
نہیں کہ پیار ، محبّت میں کاربند نہیں !
بس اُس کی باتوں میں پہلے جو تھی وہ قند نہیں
نظر میں میری ہو خاطر سے کیوں گزند نہیں
خیال و فکر تک اُس کے ذرا بُلند نہیں
کب اپنے خواب و تمنّا میں کامیاب رہے
ہم ایک وہ جو کسی مد میں بہرہ مند نہیں
تمام زیور و پازیب ہم دِلا تو چکے!
ملال پِھر بھی ،کہ بازو میں بازو بند نہیں
دَر و درِیچے جہاں بھر کے بند ہوں، لیکن!
دَرِ حَبِیب تو ہم پر کبھی بھی بند نہیں
نہیں وہ جِیت کی اُمّید تک رہی ہے،کہ اب
مُقابل ایک زمانہ ہے میرے چند نہیں
مزہ وہ لیتے ہیں تکلیف سے ہماری ،خلؔش
گِلہ ہمارا اُنھیں کب بَھلا پسند نہیں
شفیق خلؔش