شبِ تارِ برشگال وہ سامنے ہے اور اُس کی آنکھوں میں قربتوں کے چراغ وہ اپنے ہاتھ…
وہ سامنے ہے
اور اُس کی آنکھوں میں قربتوں کے چراغ
وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں میں سلگتی پوروں
کے تند لہجے کو جانتی ہے
وہ جانتی ہے کہ یہ عظیم لمحے اُسے اور مجھے کہاں میّسر ہیں
وہ ثانیوں کی اُڑان کے دَور میں جی رہی ہے
وہ اپسرا نہیں ہے
کہ میرے اور اس کے میان خوابوں کی اور خیالوں کی دھُند ہو
جس کے اس پار میں نہ دیکھوں اور اُس پار وہ نہ دیکھے
کسے فراغت کہ بند آنکھوں سے عمر بھر کوئی
مانوس چاپ ڈھونڈے
کسے یہ فرصت کہ چاند راتوں کی لوریوں سے اُٹھے
شبِ تارِ برشگال دیکھے
خالد شریف
[ad_2]