سنا ہے حسن کو سب آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں – امجد علی راجا
احمد فراز صاحب (اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے) کی زمین میں ایک تازہ غزل
سنا ہے حسن کو سب آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
اور ایک ہم ہیں، مسز کو بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے چوری چکاری سے شغف
ہمارا جوڑ ہے، پروپوز کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے پہلی نظر کا نہیں گناہ کوئی
سو ہم بھی پہلی نظر آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
ملی ہے نوکری جب سے ہماری بیگم کو
مزاج اور ہی اپنے سسر کے دیکھتے ہیں
پھسل کے زینے سے بیگم زمیں پہ جا پہنچی
کہیں وہ بچ نہ گئی ہو اتر کے دیکھتے ہیں
بنا ہی دیتے ہیں “بےبے” کو دلنشیں “بےبی”
عجیب معجزے ہم پارلر کے دیکھتے ہیں
کسی بھی طور نہ شادی کا ذکر گھر میں چھڑا
بگڑ کے دیکھ لیا اب سدھر کے دیکھتے ہیں
رہا جو حد میں تو محبوب سارے چھوڑ گئے
سو اب کہ عشق میں حد سے گزر کے دیکھتے ہیں
پھدک پھدک کے یہ معدے میں جا دھڑکتا ہے
عجب تماشے دلِ منتظر کے دیکھتے ہیں
نظر سے نرس بچی ہے نہ ڈاکٹر لیڈی
ہیں پاؤں قبر میں پر آہ بھر کے دیکھتے ہیں
وہ ہوش آتے ہی بےہوش ہونے لگتے ہیں
مریض جیسے ہی بل ڈاکٹر کے دیکھتے ہیں
درست ہاضمہ ہوتا ہے ان کا جوتوں سے
جو فصلِ حسن محلے کی چر کے دیکھتے ہیں
بلوں سے جیب بھری ہے غریب لوگوں کی
یکم کے دن بھی جو پاکٹ کتر کےدیکھتے ہیں
ہر ایک کام میں ذلت ہی گر مقدر ہے
تو اب کی بار سیاست بھی کر کے دیکھتے ہیں
بھرا ہے کتنے غریبوں کا پیٹ اس کے سبب
یہ میٹرو سے کسی دن اتر کے دیکھتے ہیں
تری زمیں میں چلا کر ٹریکٹر اپنا
فراز معجزے ہم بھی ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حسن الرجک ہے مونچھ سے راجا
سو ہم بھی عشق میں مونچھیں کتر کے دیکھتے ہیں