حسین عابد
چہرہ بھر پردہ
ایک مدت اداکاری کرنے کے بعد
میں نے گرتے پردے سے
چہرہ بھر ٹکڑا کاٹا
اور عقبی سیڑھیاں اُتر گیا
سرد ہوتی رات کی
پتھریلی گلیوں میں
مجھے ایک عورت ملی
وہ برہنہ تھی اور کندھے پہ بیگ لٹکائے
ٹہلنے کے انداز میں چل رہی تھی
میں نے پوچھا،’’ تمہیں سردی نہیں لگتی؟‘‘
وہ بولی
’’ لگتی ہے
پر جب سے میں نے خود کو دیکھنا شروع کیا ہے
کپکپی ختم ہو گئی ہے‘‘
دریا کے پُل پہ
ایک ننگا بچہ تاریک پانی میں کنکر پھینک رہا تھا
میں نے کہا
’’ کپڑے پانی میں پھینک دیے؟‘‘
وہ بولا، ’’ میں تو ایسے ہی پیدا ہوا تھا‘‘
ایک بوڑھا ملا
وہ کھلے دروازے کی دہلیز پر
ننگا بیٹھا پاؤں دھو رہا تھا
مجھے دیکھ کر بولا
’’ میں گھر کے ننگے فرش کو
گلی کی کالک سے داغدار نہیں کرتا‘‘
ایک جگہ دیمک کا ایک کنبہ
بھوک سے نڈھال بیٹھا تھا
میں نے چہرہ بھر پردے کا ٹکڑا
اس کے آگے ڈال دیا
حسین عابد