“ڈرامہ” – ایک دن کا ذکر ہے (سلسلہ وار) اے ایم ملک
ڈرامہ
ایک دن کا ذکر ہے ۔ پہاڑی کے دامن میں بیٹھا گاؤں کی خوبصورت و خالص آب و ہوا سے لطف اندوز ہو رہا تھا ،ایک سنجیدہ مزاج آدمی نے ناچیز سے “دانشور” جان کر رنجیدہ دلی سے پوچھا۔ کہ آج کل کیبل کی وبا نے نوجوان نسل کو بگاڑ دیا ہے اور ٹیلیویژن پر دکھائے جانے والے ڈرامے تو کسی صورت فیملی کے ساتھ دیکھے جانے کے قابل نہیں ہیں ،آپ کا اس بارے کیا نکتہ ء نظر ہے ۔ عرض کیا۔ عرصہ ہوا جب جوانی کی دہلیز پر قدم نہیں رکھا تھا ۔ بچپنا تھا ڈرامے بڑے شوق سے دیکھا کرتا ،ڈائجسٹ اور دیگر کتب پڑھنا بھی عادت تھی۔گاؤں میں کیبل یا ڈش کا تصور تک نہیں تھا ،اس وقت ڈرامے بھی پی ٹی وی پر لگتے تھے جنہیں فیملی کے ساتھ تکنے میں کوئی حرج نہیں تھا،کبھی کبھار کسی خاص دن پر فیملی فیچر فلم کے مزے بھی لے لیے جاتے،خبروں کے لیے سرکاری ٹی وی ہی واحد ذریعہ تھا مگر اس وقت خبریں بوریت لگتی تھیں ،سرکاری ٹی وی میں جو سب سے بڑا مسئلہ بتایا جاتا وہ یہ تھا کہ امریکی سنڈی فصلوں کے لیے کافی نقصان دہ ہے۔ لڑکپن تک یہ عادت برقرار رہی مگر پھر آہستہ آہستہ یہ عادت چھوٹتی چلی گئی مگر کتاب سے رشتہ نہیں ٹوٹا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا۔ گوکہ آج ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے مگر فلمیں تو درکنار ڈارامے بھی فیملی کے ساتھ دیکھے جانے کے قابل نہیں ۔ کتاب کی جگہ کیمپیوٹر ،موبائل اور انٹرنیٹ نے لے لی ہے اسی وجہ سے کتب بینی کا رجحان روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری ٹی وی ابھی تک امریکی سنڈی کو خطرہ قرار دیئے جا رہا ہے مگر درحقیقت “امریکن سنڈھا”پوری دنیا کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ جہاں تک بات ڈرامے کی ہے جو فیملی کے ساتھ دیکھے جاتے تھے وہ اب نیوز ٹاک شوز کی صورت میں دیکھے جاتے ہیں ۔ حالات بدلتے چلے جا رہے ہیں ،انسان کا رہن سہن چال ڈھال بھی عصری تقاضوں کے ساتھ تبدیل ہوتا جا رہا ہے مگر ایک بات تکلیف دہ ہے کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اسلاف کے ساتھ اقدار کو بھی فراموش کرتے جا رہے ہیں جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ہر دن نیا ڈرامہ سجتا ہے ،تشن و طعن سے بھرپور مگر مزاح سے دور یہ ڈرامے ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ،ان ڈراموں کو دیکھتے ہوئے دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے ،ہمیں اس سے کیا ؟ہمارے بلا سے وہ اچھا سوچے یا برا ۔۔ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں۔