لباس جسم کی اک اک شکن سے بولتا ہے – خورشید طلب
لباس جسم کی اک اک شکن سے بولتا ہے
وہ بولتا ہے تو سارے بدن سے بولتا ہے
یہاں کوئی ہے ترا غمگسار تو میں ہوں
غبارِ راہ غریب الوطن سے بولتا ہے
اُبھارتا ہے وہ رنگوں سے اک جہانِ طلسم
وہ دل کی بات سدا پیرہن سے بولتا ہے
زبان اپنی ملاحت پہ خون روتی ہے
کسی سے جب بھی کوئی روکھے پن سے بولتا ہے
کہاں سے آتے ہیں ذہنوں میں تازہ تازہ خیال
یہ کون ہے جو ہمارے دہن سے بولتا ہے
چمن میں جو بھی ہے رونق اُسی کے دم سے ہے
کبھی سنا ہے کوئی گل چمن سے بولتا ہے
پہاڑ اتنی خموشی سے کیسے ٹوٹ گیا
یہاں تو شیشہ بھی ٹوٹے تو چھن سے بولتا ہے
جو عمر بھر کی ریاضت کے بعد آتا ہے
وہ اعتبار طلبؔ تیرے فن سے بولتا ہے
خورشید طلب