پار چنا دے – عشوارانا
“پار چنا دے
دسے قلی یار دی
رات اندھیری ندی ٹھاہ ٹھاہ مار دی…”
آنکھیں بند کیے مسلسل اس گیت کی آواز میرے کانوں میں اپنا درد چھوڑ رہی تھی.. کمرے میں اتنا اندھیرا نہیں تھا جتنا کہ میرے اندر… کم ازکم یہاں امید تو تھی کہ ہاتھ بڑھاؤ گے اور لائٹ آن ہو جائے گی.. ” امید” کتنا اچھا لفظ ہے نا..جب بھی لو پگلا تسلی دے جاتا ہے…. “کچی میری مٹی کچا میرا نام نی میں ناکام نی کچیاں دا ہوندا کچا انجام نی” گیت جاری تھا اپنی جگہ اور سوچ اپنی جگہ کہ موبائل کی ٹون نے سوچ کو روک دیا.. “سنو” سکرین پہ پیغام جگمگا رہا تھا…دیکھے بغیر بھی اس نمبر کو میں پہچان سکتی تھی.. اک یہی تو اپنا نمبر تھا…اتنے دنوں بعد اسکے لفظوں میں اپنا پن نظر آیا تھا..دل کو خوامخواہ ہی خوش فہمی ہو گئی.. انگلیوں نے حرکت کرنا چاہی پر دل نے روک دیا…ابھی اسی سحر میں رہنا تھا.. “سنو بھی”.دوبارہ پیغام جگمگایا… اس بار دل کی بھی نہیں سنی…اور ” جی” سینٹ سے ہوتا ہوا اسکی سکرین کو جگمگایا گیا… شاید وہ مسکرایا ہو گا…اسے پتا ہے کہ میں اسکے سوال کے جواب میں کبھی چپ رہ ہی نہیں سکتی…. اسکی انگلیوں نے پھر سے حرکت کی ہو گی اور میلوں دور کی مسافت پل میں طے کر کر میری سکرین کو جکڑ لیا…شاید مجھے بھی… آؤ باہر چلیں.”. لبوں پہ اک خفیف سی مسکراہٹ آئی اور معدوم ہو گئی… ساتھ تو پھر بھی نہیں چلنا..بس اندر باہر…. میرے تصور میں، میں اب اسکے انتظار میں تھی.. وہ مجھے دور سے آتا دکھائی دیا..وہ ہمیشہ دور سے ہی نظر آتا ہے.. میری نظریں اسکے قدم اٹھاتے پاؤں پہ ہیں جو مسلسل قریب ہوتے جا رہے ہیں.. اور بالآخر ایک، دو، تین..قدم برابر آگئے….میرے قدموں کے برابر…مجھے ایسے ہی تو اچھے لگتے ہیں …میں نے نظریں اٹھائی.اور خوشی سے دیکھا.. وہ مسکرا رہا تھا..میری تو مسکراہٹ ہی یہی تھی.. ہم چلنے لگے ..ساتھ ،برابر قدموں سے … کہ اچانک اک پتھر میری معصوم سی خواہش میں حائل ہوتا مجھے گرا جاتا ہے…. میرے گرنے سے اسکے قدم آگے ہو گئے..میں نے جلدی سے اٹھنا چاہا…میں اٹھ ہی نہ سکی..میری آواز اسے سنائی نہیں دے رہی..اس نے پلٹ کر دیکھا ہی نہیں..قدموں کا فاصلہ بڑھ رہا ہے…مسلسل بڑھ رہا ہے… میں وہیں پڑی ہوں اور وہ آگے ہی جا رہا ہے.. ویکھ چھلا پیندی نہ چھڈی دل وے دور سڑک کے اختتام پہ وہ مڑ کر دیکھتا ہے اور میرے انتظار میں وہیں رک گیا ہے.. میں درد سے نڈھال چلنے کی کوشش کر رہی ہوں… آج ماہیوال نوں جانا مل وے آہی دل وے….. اور مجھے پتا ہے کہ تمہارا اختتام میں ہی ہوں..اس نے اک بار بڑے ناز سے کہا تھا.. میں بس قریب ہی ہوں …وہ ابھی بھی وہیں ہے..میں اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہوں.. اور پھر اس کے ساتھ ہی میرا تصور ٹوٹتا ہے.. سکرین ابھی بھی جگمگا رہی ہے. “اوکے” یہ لفظ پڑھتے ہی پھر سے مسکرا پڑی ہوں… کہا تھا نا وہ زیادہ دیر انتظار کرنے والوں میں سے نہیں….اسے بس باہر تک چلنا ہے… میرا اختتام بس ہونے کو ہے… کمرے میں ابھی بھی اندھیرا ہے …
“یار نوں ملے گی آج لاش یار دی “
گیت کی آخری لائن مسکرا رہی ہے..